Orhan

Add To collaction

سنگ مر مر

سنگ مر مر
 از قلم اسامہ رحمن مانی 
قسط نمبر4

اگلی صبح فیصل خلاف معمول جلد ہی اٹھ گیا تھا....سوچنے لگا اٹھ گیا ہوں تو کیوں نہ تھوڑی دیر چکر لگا آؤں باہر کا....
اس نے گاڑی نکالی اور باہر نکل گیا...بے خیالی میں وہ زیادہ ہی دور نکل گیا پھر اسے احساس ہوا تو وہ مڑنے لگا کہ اچانک اسے ایک بوڑھی خاتون دکھائی دیں جو آٹے کا تھیلا اٹھائے بمشکل روڈ کراس کرنے کی کوشش تھیں....
وہ بے اختیار ان کے پاس چلا گیا...
اماں...میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں بتایے کہاں جانا ہے....اس نے قریب جا کر کہا...
نہیں بیٹا...میں بس چلی جاؤں گی..شکریہ...
یہیں سامنے گلی میں جانا ہے...انہوں نے قدرے ہانپتے ہوئے کہا..
کوئی بات نہیں آپ بیٹھیں...میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں...
خیر وہ اس کے ساتھ بیٹھ گئیں اور فیصل ان کے گھر تک انہیں چھوڑ آیا...راستے میں وہ خاتون فیصل کو یوں دیکھ رہی تھیں جیسے اسے پہلے بھی کہیں دیکھ چکی ہوں...
لیکن فیصل اس سے بے خبر تھا...
بس بیٹا...یہیں روک دو...اللہ تمہیں خوش رکھے... انہوں نے اسے دعا دیتے ہوئے کہا۔۔۔
شکریہ...میں چلتا ہوں۔۔۔
ارے بیٹا۔۔۔پانی تو پی کر جاؤ۔۔۔
نہیں مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔میں جاتا ہوں۔۔۔وہ وہاں سے لوٹ آیا۔۔۔
کچھ دیر میں وہ ہوٹل کے لیے نکل رہا تھا۔۔۔۔
________________________________________
سنو مجھے اپنے نوٹس تو دو میں نے کاپی کرنے ہیں۔۔۔ زارا نے ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔
ہمم یہ لو۔۔۔اس نے اسے رجسٹر تھما دیا۔۔۔
تم یہ کیسے اتنا اتنا اکٹھا لکھ لیتی ہو۔۔۔ہم سے تو نہیں لکھا جاتا۔۔۔زارا نے صفحے ٹٹولتے ہوئے پوچھا۔۔۔
آخر ٹاپ بھی تو کرنا ہوتا ہے نا کلاس میں۔۔۔اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
اس طرح تو کر بھی تمہی سکتی ہو بھئی۔۔۔
________________________________________
حمزہ۔۔۔۔میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔۔۔زرا کام سے جا رہا ہوں۔۔۔۔دن ڈیڑھ بجے فیصل بے اختیار اپنے آفس سے نکل کر باہر جانے لگا۔۔۔
اوکے۔۔۔حمزہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔
وہ پھر اسی گلی میں پہنچ گیا جہاں سے گزشتہ روز گزرا تھا۔۔۔
لیکن آج چونکہ وہ وقت سے پہلے ہی وہاں پہنچ گیا تھا لہذا اسے انتظار کرنا پڑا۔۔۔کچھ دیر بعد اس کا انتظار ختم ہوا اور ایمان اسے سامنے سے آتی دکھائی دی۔۔۔اس نے اس کو دیکھا اور بے اختیار دیکھتا ہی چلا گیا۔۔۔اس دوران اس کی توجہ کا مرکز صرف ایمان تھی۔۔۔۔یہاں تک کہ ایک بار پھر وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔۔۔ایمان کا شریفانہ اور سادہ چال چلن۔۔۔وہ خوبصورت انداز میں اس کا سر جھکا کر گزر جانا اس کے دل کو بھا گیا تھا۔۔۔وہ واپس ہوٹل چلا گیا۔۔۔۔باقی کا پورا دن وہ اسی کے بارے میں سوچتا رہا۔۔۔اور کوئی کام صحیح سے نہ کر پایا۔۔۔وہ پہلی لڑکی تھی جس سے وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا تھا۔۔۔وہ جانتا تھا کہ اس کا دل اسے اندر ہی اندر پکار رہا ہے اور اسے اس بات کا احساس دلا رہا ہے کہ اس کا انتخاب درست اور نہایت خوبصورت ہے۔۔۔کئی حسین خیالات اس کے ذہن میں گردش کرنے لگی تھے۔۔۔
________________________________________
آپی۔۔۔نور نے ایمان کو آواز دی۔۔۔
ہمم۔۔۔
وہ لڑکا کون ہے جو دو دن سے۔۔۔وہاں گلی میں کھڑا ہوتا ہے۔۔۔
کون۔۔۔کس کی بات کر رہی ہو۔۔۔مجھے نہیں معلوم۔۔۔
شاید کوئی لوفر آوارہ ہوگا۔۔۔میں ابا کو بتاؤں گی ۔۔۔۔نور غصے سے بولی۔۔۔
ارے رکو ابھی۔۔۔اتنی جذباتی نہ ہو جایا کرو۔۔۔اس نے کچھ کہا تو نہیں نا ہمیں۔۔۔کیا پتہ کون ہے۔۔۔ایمان نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔۔۔
________________________________________
فیصل ایک بار پھر رات میں ٹیرس پر کھڑا اپنے دل میں کچھ نئی خواہشات کا جنم ہوتا محسوس کر رہا تھا۔۔۔ہلکی ہلکی ہوا اس کو تر و تازگی کا احساس بخش رہی تھی۔۔۔اس کے نسبتاً لمبے بال ہوا سے ہلکے ہلکے اڑ رہے تھے۔۔۔جنہیں اس نے ایک ہاتھ پھیر کر درست کیا۔۔۔
کون ہو تم۔۔۔۔اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔۔۔میں نے تمہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔۔۔لیکن پھر بھی تم میری زندگی میں نئی نہیں ہو۔۔۔پہلے کبھی ایسا احساس نہیں ہوا مجھے۔۔۔پھر بھی یہ احساس مجھے انجانا نہیں لگ رہا۔۔۔آخر کیا وجہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض دفعہ محبت انسانوں میں ایسا احساس پیدا کر دیتی ہے کہ کوئی اس کے بارے میں سوچتا ہی رہ جائے مگر جان نہ پائے۔۔۔۔کبھی تو دو دلوں کو آپس میں غیبی طور پر جوڑ کر تو کبھی یک طرفہ احساسات کے زریعے کسی کو بے چینی و اضطراب کی کیفیت سے دو چار کر کے۔۔۔۔۔۔اسے اس کے بارے میں تصور کرنا اچھا لگ رہا تھا۔۔۔۔وہ جی ہی جی میں سوچ رہا تھا کہ ایک نگاہ وہ بھی مجھ پر ڈالے۔۔۔ایک مرتبہ ہماری نظر ملے اور ہمارے دل کے تار جڑیں۔۔۔۔۔۔۔۔
________________________________________
بیٹا یہ دوا کھا لو۔۔۔پھر آرام کرنا۔۔۔
اماں صدیقہ نے اپنے پوتے کے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔۔وہ آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔۔۔۔ اس نے آنکھیں کھول کر اماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔
اماں۔۔۔میں چاہتا ہوں اب میں جلد ٹھیک ہو جاؤں۔۔۔آپ سارا سودا سلف لاتی ہیں۔۔۔میرا بھی خیال رکھتی ہیں۔۔۔۔اور کب تک دادا کی تھوڑی سی پنشن پر گزارا ہو گا۔۔۔۔مجھے دکان کھولنی ہی پڑے گی۔۔۔وہ پریشان سا ہو کر بولا۔۔۔
کوئی بات نہیں میرے بچے۔۔۔بس تو ٹھیک ہو جا۔۔۔اللہ خیر کرے گا۔۔۔
سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔آج تو ایک بھلا مانس مل گیا تھا صبح جب آٹا لا رہی تھی۔۔۔گاڑی میں چھوڑ گیا گھر تک۔۔۔نجانے کون تھا۔۔۔وہ کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں صدیقہ اپنے پوتے زاہد کے ساتھ چھوٹے سے گھر میں رہتی تھیں۔۔۔زاہد پانچ سال کا تھا جب اس کے والدین ایک ایکسیڈنٹ میں اسے چھوڑ کر چلے گئے۔۔۔وہ اکلوتا تھا۔۔۔۔اماں صدیقہ نے اس کو دس جماعتیں پڑھائیں، اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھا، اچھی تربیت کی اور اس قابل بنا دیا کہ وہ اپنی دکان کھول سکے۔۔۔کچھ قرض وغیرہ لے کر اور کچھ اماں نے خود پیسے جوڑ رکھے تھے ان کی مدد سے زاہد نے گھر کے قریب ایک چھوٹی سی دکان کھولی۔۔۔جس میں وہ بچوں کی کھانے پینے کی چیزیں اور کھلونے فروخت کرتا تھا۔۔۔۔گزارا اچھا ہونے لگا تھا۔۔۔۔زاہد نے آہستہ آہستہ قرضے بھی چکا دیے تھے۔۔۔لیکن قدرت کی کرنی ایسی ہوئی کہ تین ہفتے پہلے دکان سے گھر لوٹتے ہوئے اس کا کسی کی کار سے ایکسیڈنٹ ہو گیا۔۔۔جس میں اس کی دونوں ٹانگیں بری طرح متاثر ہوئی تھیں۔۔۔اسپتال کے اخراجات اور ادویات وغیرہ کی وجہ سے دوبارہ ان پر قرضہ بھی چڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔اور اب وہ بستر سے لگ کر رہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اماں صدیقہ خود تو پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن پہلے خاوند اور پھر اکلوتے بیٹے کے جانے کے بعد انہوں نے جس طرح زمانے کے دکھ جھیلے جو تکالیف برداشت کیں ان سے انہوں نے بہت سے اسباق سیکھ لیے۔۔۔سچ کہتے ہیں زمانہ بہترین استاد ہوتا ہے۔۔۔۔۔
اس سب نے ان کو دنیا اور دنیا کے لوگوں کو پڑھنا سکھا دیا تھا۔۔۔۔ان کی چھٹی حس خوب تیز تھی۔۔۔۔اکثر باتیں بنا کسی کے بتائے ہی جان جاتی تھیں۔۔۔۔لیکن صبح ملنے والا وہ لڑکا ان کے لیے معمہ بن کر رہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
________________________________________
کاش۔۔۔عمیر خود ہی انکار کر دے اس رشتے سے تو کتنا اچھا ہو۔۔۔۔۔مگر وہ ضدی ہے۔۔۔نہیں کرے گا۔۔۔چاہے جو کچھ بھی ہو جائے۔۔۔اے میرے رب تو ہی کوئی رستہ نکال دے۔۔۔مجھے اس پریشانی سے آزاد کر دے۔۔۔۔۔ایمان یہ سب سوچتے ہوئے جانے کب نیند کی وادیوں میں جا پہنچی۔۔۔۔۔۔۔۔

   1
0 Comments